Shamim Hanafi

Shamim Hanafi
the man,the vision

Monday, October 17, 2016

Zamarrud Mughal in conversation with Shamim Hanfi

ہمارے ہاں اول تو زندگی کے دوسرے مسائل اتنے حاوی ہوتے ہیں انسان پر کہ ادب کی طرف اس کا رجحان کم ہوتاہے۔ دوسرے ہمارے یہاں خواندگی کی شرح کم ہے۔ ہمارے یہاں بے جا تعصبات کا چلن عام ہے۔ مذہب کی غلط تعبیر وتشریح ہر قوم میں آپ دیکھتے ہیں۔ ان باتوں کا بوجھ انسان کے حواس پر اتنا زیادہ ہے کہ کھل کر کسی چیز کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ ادب تو تعصبات کوتوڑنے والی طاقت کا نام ہے۔ جو رکاوٹیں ،مذہب، سیاست کی مداخلت سے کھڑی ہوجایا کرتی ہیں، انہیں گرانے کا جو سب سے موثر وسیلہ ہے، وہ ادب ہے۔ اگر ایساIdealمعاشرہ پیدا ہوجائے تو وہاں انفرادی شعور اور اجتماعی شعور میں قربت کے بہت سے بہانے اپنے آپ پیدا ہوجائیں گے۔میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اجتماعی زندگی کے ادراک کے بغیر آپ کے انفرادی شعور کے بھی کوئی معنی نہیں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ انفرادی شعور، اجتماعی زندگی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
مجھے کسی بھی قسم کے تعصب کو جانب داری کو کسی مہذب آدمی کے
ساتھ وابستہ کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ میرے نزدیک تہدیب کی اور شائستگی کی پہچان یہ ہے کہ آدمی جتنا زیادہ اپنے ذہن کو مصلحتوں سے، تعصبات سے اور بہت ہی حقیر قسم کی ترجیحات سے اپنے کو آزاد کرلے، ہر معاملے میں اس کا ذہن اتنا ہی تربیت یافتہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اپنے ہی بارے میں کوئی بات میں ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں میں نے بھی کسی طرح کی حصار بندی میں، گروہ بندی میں یقین نہیں رکھا۔
اجتماعی شعور کے معاملے ہوتا یہ ہے کہ ہر اجتماع کو آپ معتبر نہیں کہہ سکتے۔ ایک اجتماع وہ ہوتا ہے کہ جہاں سبھی تعلیم یافتہ ہوں، روسی انقلاب کے بعد سوویت یونین میں جو معاشرہ پیدا ہواوہاں بڑا ادب تونہیں لکھا گیا انقلاب کے بعد۔ بڑا ادب تو وہاں انقلاب سے پہلے لکھا جاچکا تھا لیکن انقلاب کے بعد وہاں بڑا قاری ضرورپیدا ہوا۔ کسی روسی ادیب نے کہا بھی تھا کہ ٹھیک ہے ہم نے بڑا ادب نہیں دیا انقلاب کے بعد، لیکن ہم نے بڑا قاری پیدا کیا۔ شیکسپیئر جتنا انگلستان میں پڑھا جاتا تھا اس سے زیادہ روس میں بڑھا جاتا تھا۔ انقلاب کے بعد کا زمانہ کا عام آدمی بھی ادب سے دلچسپی رکھتا تھا اور کیفیت یہ رہی ہے وہاں کے شدید موسم میں جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ مثلاًRussian Winterجوبدنام ہے، اس عالم میں بھی لوگ کتابوں کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ گھنٹوں
کھڑے رہتے تھے۔
______________________________________________
ڈاکٹر شمیم حنفی اُردو کے اہم نقاد ہیں جنھوں نے ادب، زبان اور کلچر کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ زمرد مغل صاحب کے تیکھے اور نہایت اہم سوالات پہ حنفی صاحب کا موقف قارئین کے لیے حاضر ہے۔
ان خوشبو جیسی باتوں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے اس لنک کو کھول کر۔
(انٹر ویو: زمرد مغل) زمرد مغل: آپ کی ایک تنقیدی کتاب ہے’’انفرادی شعور اور اجتماعی…
AIKROZAN.COM

No comments:

Post a Comment